ہمارے روحانی سلسلے میں جو سائلین اپنے مسائل کا روحانی حل معلوم کرنے کے لئے رابطہ کرتے ہیں۔ ان میں ایسے بے شمار سائلین بھی ہیں جو ہمیں اپنی آپ بیتی WhatsApp یا ڈاک کے ذریعے ارسال کرتے ہیں۔ جس میں وہ اپنی آپ بیتی بتاتے ہیں کہ وہ ہمارے روحانی نیٹ ورک تک کیسے پہنچے یا ان کو ہمارے سلسلے سے مشکلات کا فوری روحانی حل اور فیض کیسے ملا۔ یہ ہم آپ سے صرف اس لئے شیئر کر رہے ہیں کہ کیونکہ ہمارے بزرگ فرماتے ہیں کہ سب سے بڑی نیکی ہے کسی کے یقین کو مضبوط کرنا۔ ممکن ہے کہ ان سائلین کی آپ بیتی ہم آپ سے شیئر کرکے آپ کے یقین کو مضبوط کرنے میں اس قدر کامیاب ہوجائیں کہ آپ کی بھی تمام جائز دعائیں اللہ کی بارگاہ میں فوری قبولیت کا درجہ پالیں۔
اسلام علیکم!
میرا نام محمد اسحاق ہے اور میں ایک گاؤں کا رہائشی ہوں۔ اور اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہوں۔ میرا تعلق غریب خاندان سے تھا۔ میرے والد صاحب محنت مزدوری کرتے تھے جس سے گھر کا گزر بسر بہت مشکل سے ہوتا تھا۔ ابا جان کو مجھے پڑھانے کا بہت شوق تھا۔ ان کا یہ خواب تھا کہ میں پڑھ لکھ کر بہت بڑا آدمی بنوں۔ جس سے اگلی زندگی آسان ہو جائے۔ ایک طرف میں تھا جس کا پڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا۔ دوستوں کے ساتھ مل کر آوارہ گردی کرنے کا زیادہ شوقین تھا۔ گھر سے سکول کے لیے نکلنا مگر باہر جا کر دوستوں کے ساتھ مل کر کھیلنے چلے جانا اور ٹھیک چھٹی کے وقت واپس گھر آ جانا۔ یہ میرا روزانہ کا معمول بن چکا تھا۔ اس وقت میں جماعت نہم کا طالب علم تھا اور آج بھی سوچ کر حیران ہوتا ہوں کہ اتنی جماعتیں میں نے کیسے پاس کر لی؟
لیکن وہ کہتے ہیں نا ں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور برائی کبھی نہیں چھپتی۔ ایک دن ماسٹر صاحب ابا جان سے ملنے گھر آگئے اور میں انہیں دیکھ کر چپکے سے باہر نکل گیا۔ کیونکہ مجھے اندازہ ہو چکا تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ ماسٹر صاحب نے اباجان کو تفصیل سے میری شکایت لگائی کہ آپ کا صاحبزادہ سکول آنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ راستے سے ہی بھاگ جاتا ہے۔ اس پر اباجان بہت زیادہ شرمندہ ہوئے۔ شام کو کھیل کود کر جب میں گھر واپس آیا تو ابا جان کا چہرہ غصے سے سرخ تھا۔مجھے دیکھتے ہی وہ میری طرف لپکے لیکن درمیان میں امی جان آگئیں اور انہوں نے مجھے بچا لیا۔ ورنہ اس دن میری ابا جان سے بہت خاطر تواضع ہونی تھی۔ امی نے مجھے مار سے، بچا تو لیا لیکن اباجان نے میری خوب بے عزتی کی۔ مگر اس عمر میں بات کہاں سمجھ آتی ہے۔ اس سب کے بعد بھی میری عادات ذرا نہ بدلیں۔ آخرکار اباجان نے تھک ہار کر مجھے اسکول چھڑوا دیا اور اپنے دوست سے بات کرکے اس کے پاس کام سیکھنے کے لیے چھوڑ دیا۔ اس وقت میری عمر تقریبا پندرہ سال تھی۔ میرے والد صاحب کے دوست کا نام حشمت علی تھا۔ کیونکہ وہ ابا جان کے بھائی بنے ہوئے تھے۔ اس لئے میں انہیں چاچا کہہ کر بلایا کرتا تھا۔ ان کی گاڑیوں کی ورکشاپ تھی تو انہوں نے مجھے اس کام پر لگا دیا۔ ان کے بارے میں ایک بات بتاتا چلوں کہ وہ بہت کنجوس آدمی تھے۔ جیب سے پیسے نکالنا ان کے لیے بہت مشکل تھا۔ وہ مجھے روزانہ کے صرف بیس روپے دیا کرتے تھے۔
میں کافی بار وہاں سے بھاگا بھی مگر چچا جان ورکشاپ پر کام کرنے والے دیگر لڑکوں کو بھیج کر مجھے ڈھونڈ لیتے تھے اور وہ لڑکے مجھے اٹھا کر واپس ورکشاپ پر لے آتے تھے۔ آخرکار میں نے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنی ساری توجہ کام سیکھنے پر لگا دی۔ وہاں سے تھوڑا بہت جو خرچ ملتا تھا وہ خود ہی اڑا دیا کرتا تھا۔ابا جان محنت مزدوری کرکے جو پیسے لاتے وہ گھر خرچ ہو جاتے تھے۔ میں اپنے آپ میں کام سیکھ کر والدین پر احسان کر رہا تھا اور مجھے ذمہ داری کا کوئی احساس نہ تھا۔ مجھے اس وقت ورکشاپ پر کام کرتے ہوئے پانچ سال گزر چکے تھے اور پتہ بھی نہیں چلا۔ لیکن مجھ میں ابھی تک کوئی تبدیلی نہ آئی۔ میں نے کام میں بہت مہارت حاصل کر لی تھی۔ اور چچا جان کی ورکشاپ بھی بہت تیزی سے ترقی کر رہی تھی۔ ہمیں کام سے سارا دن فرصت نہیں ملتی تھی۔ اس وقت میں ورکشاپ کا سینئر کاریگر بن چکا تھا اور چچا جان مجھے روزانہ کی بنیاد پر 500 روپے دینے لگ گئے تھے۔ مگر گھر کے حالات ابھی تک ویسے کے ویسے ہی تھے۔
ایک دن کام کا بوجھ اتنا زیادہ تھا کہ مجھے گھر جانے میں دیر ہو گئی۔ تقریبا رات کے دس بجے کا وقت تھا ہمارے محلے کا ایک لڑکا بھاگتا ہوا ورکشاپ پر آیا اور اکھڑی ہوئی سانسوں میں کچھ بولنے لگ گیا۔ لیکن مجھے ٹھیک طرح سے اس کی بات سمجھ میں نہ آئی۔ میں نے اسے بٹھایا اور پانی کا گلاس پیش کیا۔ پانی پینے کے بعد اس نے تھوڑا سا سکون محسوس کیا۔ پھر مجھے بتایا کہ آپ کے ابا جان کو کچھ ہوگیا ہے اس کی وجہ سے آپ کی امی روئے جارہی ہیں۔ میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی کہ آخر ایسا کیا ہوگیا ہے جس کی وجہ سے امی جان اتنا رو رہی ہیں۔ میں بھاگ کر گھر گیا۔ وہاں جا کر دیکھا کہ ابا جان کے ہاتھ پاؤں ٹیڑھے اور زبان ساکن ہو چکی تھی اور وہ کچھ بول بھی نہیں پا رہے تھے۔ میں نے فوری طور پر گاؤں کے ڈاکٹر کو بلایا اس نے چیک اپ کرنے کے بعد کہا کہ انہیں شہر لے جائیں۔ ان کی حالت بہت سنجیدہ ہے۔ میں ابا جان کو شہر لے گیا اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں سرکاری ہسپتال میں داخل کروایا۔ جب ڈاکٹرز نے ان کا مکمل معائنہ کر لیا تو مجھے بتایا کہ انھیں فالج کا اٹیک آیا ہے۔ یہ نہ تو ٹھیک سے بول پائیں گے اور نہ چل سکیں گے۔میں نے سوچا ان کا اگرکسی مہنگے اسپتال سے علاج کروایا جاتا تو شاید ان کی طبیعت میں سدھار آسکتا تھا۔ مگر اتنا پیسہ نہیں تھا کہ ان کا علاج کروا سکیں۔ گھر میں سختیاں اور فاقے شروع ہوگئے۔ جیسے ہی ابا جان بیمار پڑے گھر میں سب کچھ بدل گیا۔ ہنر کے باوجود میں اس قابل نہیں تھا کہ ساری ذمہ داریاں سنبھال سکوں۔
ایک دن میرا دوست امین جو کہ شہر میں کام کرتا تھا۔ ابا جان کا سن کر ان کی صحت کے بارے میں دریافت کرنے گھر آیا۔ باتوں باتوں میں اس کو میں نے گھر کے تمام حالات بتادئیے۔ اس نے مجھے سیدہ روحانی ویلفیئر کے بارے میں بتایا اور اگلے ہی دن شہر سے واپسی پر مجھے ایک نقش لا کر دیا۔ اور مجھے بتائے گئے طریقے کے مطابق اس کو استعمال کرنے کا کہا۔ میں نے بہت پابندی سے اس پر عمل کیا اور اللہ کے حضور رو رو کر اپنے ابا جان کی تندرستی کے لیے دعائیں کیں۔ چند ہی دنوں بعد مجھے ذہنی سکون اور سب کچھ بدلتا محسوس ہونے لگا۔ ہلا دینے والی بات یہ تھی کہ میرے چچا جان جو نہایت کنجوس تھے۔ انہوں نے مجھے شہر میں الگ ورکشاپ بنا کر دی اور ذاتی کاروبار شروع کرنے کا کہا۔ ورکشاپ پر آنے والے تمام اخراجات انہوں نے اٹھائے۔ میں نے ورکشاپ پر کام کرنا شروع کر دیا اس کے ساتھ ساتھ پابندی سے اس نقش کے ساتھ جو وردتھا وہ بھی کرتا رہا۔ اس نقش کی برکت اتنی تھی کہ میرا کاروبار بہت تیزی سے بڑھنے لگا اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مہنگا علاج کروائے بغیر ہی اباجان کی طبیعت ٹھیک ہونے لگ گئی۔ اس نقش کی روحانی برکت سے ابا جان پہلے کی طرح بولنے لگ گئے۔الحمدللہ اب وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر چل پھر بھی لیتے ہیں۔ اس کی برکت سے مجھ میں بھی بہت تبدیلی آئی اور احساس ذمہ داری پیدا ہوئی۔ اب گھر کے سارے اخراجات میں پورے کر رہا ہوں اور ابا جان بھی بالکل تندرست ہیں۔ اللہ کے کرم و فضل سے میں نے اپنے گھر کی تعمیر نو بھی کی ہے اور میرے پاس اپنی ایک گاڑی بھی ہے۔ چچا جان نے جو رقم ورکشاپ بنانے پر خرچ کی تھی وہ بھی واپس کر چکا ہوں۔اس نقش نے تو میری زندگی ہی بدل کر رکھ دی۔ اب گھر میں بہت سکون ہے اور میری والدہ بھی خوش رہتی ہیں۔ امی جان کو اب میری شادی کرنے کی جلدی ہے۔ مگر میں نے تو انہیں بول دیا ہے کہ اس معاملے میں بھی سیدہ روحانی ویلفیئر سے مدد لوں گا۔ کیونکہ ان کے پاس تمام مسائل کے حل ہوتے ہیں۔

نقش حاصل کرنے کا طریقہ

اگر آپ یہ نقش حاصل کرنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کریں۔

Contact Us:

For Female: 0092  323 7718187

For Male:     0092  323 4028555