اقوال حضرت علی کرم اللہ وجہہ
دنیا اس کو یتیم سمجھتی ہے جس کے ماں باپ نہ ہوں مگر میں اس کو یتیم سمجھتا ہوں جس کے اچھے دوست نہ ہوں۔
تم اچھا کرو اور زمانہ تم کو بر سمجھے یہ تمہارے حق میں بہتر ہے بجائے اس کے کہ تم برا کرو اور زمانہ تم کواچھا سمجھے۔
انسان دکھ نہیں دیتے بلکہ انسانوں سے وابسطہ امیدیں دکھ دیتی ہیں۔
اگر تم کسی کو چھوٹا دیکھ رہے تو اسے دور سے دیکھ رہے ہو یا پھر غرور سے۔
اگر تم سیدھے راستے پر ہو اور تمہیں مشکلات کا سامنا نہیں تو کچھ دیر کے لئے سوچو کہ ہوسکتا ہے تم غلط راستے پر ہو کیونکہ سیدھا راستہ مشکلات پر مشتمل ہوتا ہے۔
جب تم دنیا کی مفلسی سے تنگ آجائو اور رزق کا کوئی راستہ نہ نکلے تو صدقہ دے کر اللہ سے تجارت کر لیا کرو۔
اپنی سوچ کو پانی کے قطروں سے بھی زیادہ شفاف رکھو کیونکہ جس طرح قطروں سے دریا بنتا ہے اسی طرح سوچوں سے ایمان بنتا ہے۔
اپنی زبان کی تیزی اس ماں پر مت آزمائو جس نے تمہیں بولنا سکھایا۔
جھوٹ بول کر جیت جانے سے بہترہے سچ بول کر ہار جائو۔
میں اپنے بڑوں کا احترام اس لئے کرتا ہوں کہ ان کے ثواب مجھ سے زیادہ ہیں اور اپنے سے چھوٹوں کے احترام اس لیے کرتا ہوں کہ ان کے گناہ میرے سے کم ہیں۔
جب میرا جی چاہتا ہے کہ اپنے رب سے بات کروں تو میں نماز پڑھتا ہوں اور جب میرا جی کرتا ہے کہ اللہ پاک مجھ سے بات کریں تو میں قرآن پاک تلاوت کرتا ہوں۔
دولت، رتبہ اور اختیار ملنے پر انسان بدلتا نہیں بلکہ اس کا اصلی چہرہ سامنے آجاتا ہے۔
زندگی کی اصل خوبصورتی یہ نہیں کہ آپ کتنے خوش ہیں بلکہ زندگی کی اصل خوبصورتی تو یہ ہے کہ دوسرے آپ سے کتنا خوش ہیں۔
انسان کو بات کرنے کےلئے ایک سال کا وقت لگتا ہے مگر کون سا لفظ کہاں استعمال کرنا چاہیےیہ سیکھنے کے لئے پوری زندگی لگتی ہے۔
انسان کی اصل موت تب ہوتی ہے جب وہ کسی کے دل سے نکلتا ہے